زہر کھائیں گےآپ؟ اُس نے غصے بھرے لہجے میں پوچھا اور میں نے کہاں “ہاں” اور پھر میں نے زہر کھا لیا۔
زندگی میں ہر دن ہی اہم ہوتا ہے، مگر کچھ دن ایسے ہوتے ہیں کہ جن کو ہم اپنی بہترین یادوں میں ہمیشہ محفوظ رکھتے ہیں۔ گیارہ اپریل بھی میری زندگی کا ایک ایسا ہی دن ہے۔
وہ پہلی دفعہ میرے سامنے آئی تو نہ کوئی ہوائیں چلیں، نہ گھنٹیاں بجیں اور نہ ہی کوئی میوزک سنائی دیا۔ وہ بالکل اُن دوسری لڑکیوں کی طرح میری زندگی میں آئی کہ جہاں آپ کے دل کے تار بالکل نارمل ہی رہتے ہیں۔ ہاں مگر یہ معلوم نہ تھا کہ یہ بالکل دوسری لڑکیوں کی طرح میری زندگی میں آنے والی لڑکی، میری زندگی ہی بدل دے گی۔
اُس کے ساتھ میرا ہر دن انتہائی خوبصورت ہوتا تھا، ہم ایک دوسرے کے ساتھ ہر موضوع پر باتیں کرتے، اپنی زندگی کو زیادہ مشکل بنانے کی بجائے آسان بنانے کی کوشش کرتے۔ غرض کہ ہم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ایک اطمینان محسوس کرتے کہ جہاں دلوں میں ایک دوسرے کی عزت ہوتی تھی اور کوئی دوسرا رشتہ نہیں۔
مگر آہستہ آہستہ مجھے محسوس ہونے لگا کہ چاہتے نہ چاہتے ہوئے میں اُس کو سوچنے لگا ہوں اور یہ بات جانتے ہوئے بھی کہ یہ وہ محبت کا راستہ ہے کہ جہاں میرا چلنا بالکل آساں نہ ہوگا ۔ بہت مرتبہ خود کو روکا، سمجھایا مگر شاید پسندیدگی کا رشتہ دونوں طرف سے شروع ہورہا تھا۔ لوگ کہتے ہیں کہ محبت ہمیشہ آسانی دیکھ کر کرنی چاہیئے مگر آسانی دیکھ کر جو کری تو وہ محبت تو نہ کہلائی۔ محبت میں نہ کچھ سوچا جاتا ہے اور نہ ہی دل کو بہت زیادہ تاویلیں دی جاتی ہیں۔ یہ تو بس ہوجاتی ہے، کہ جہاں ہوائیں بھی چلتی ہیں، خاموش بیٹھو تو موسیقی بھی سنائی دیتی ہے ۔ جون جولائی کی گرم تپتی دوپہر بھی دسمبر کی طرح کا مہینہ بن جاتا ہے۔
پھر ایک شام وہ مجھ سے ناراض ہوگئی کسی بات ۔ میں نے اُس کو کال کی کہ ناراضگی ہم دونوں کے درمیان نہیں ہوتی تھی تو یہ ضروری تھا کہ اُس کو منا لیا جائے اور میں نے اُس سے کہا کہ چائے پلاؤ گی؟ اٗس نے اُسی ناراض لہجے میں کہا کہ زہر کھا لیجئے۔ نہ جانے کیوں اُس وقت یہ بات کہتے ہوئے وہ اتنی اپنی سی لگی کہ دل میں ایک فیصلہ کرلیا کہ اِس محبت کو مزید نہ روک سکتا ہوں اور نہ ہی اپنے دل میں رکھ سکتا ہوں، تو بس دل کو مضبوط کرکے اُس سے کہہ دیا، اور پھر زہر کھا ہی لیا ۔
محبت ایک رشتہ ہے، قید بالکل بھی نہیں ہے۔ ہم میں سے بہت سارے لوگ اس کو قید سمجھتے ہیں کہ جہاں انھیں لگتا ہے کہ محبت ایک روک ٹوک اور ایک پابندی کا نام ہے۔ ایسا ہرگز نہیں، نہ ہی اس میں کوئی پابندی ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی روک ٹوک۔ مگر ہاں!۔۔ بہت زیاد ڈر ہوتا ہے، بہت زیادہ خوف ہوتا ہے اور جو بھی پابندیاں اور روک ٹوک ہوتی ہیں وہ صرف اس وجہ سے کہ کہیں نہ کہیں ہمیں اس رشتے کو کھونے کا خوف ہوتا ہے۔ بالکل کسی بچے کی طرح کہ جہاں وہ اپنے کھلونے کو سینے سے لگا کر رکھتا ہے کہ کہیں وہ کھو نہ جائے۔ ہاں مگر کوئی پچھتاوا نہیں ہوتا، اپنے کسی بھی عمل کا، اپنے کسی بھی فیصلے کا، کسی بھی بات، کوئی بھی افسوس نہیں، کوئی بھی دکھ نہیں۔ کہ جہاں ہم سب کچھ اچھا ہونے کی اُمید رکھتے ہیں تو کہیں نہ کہیں بُرا بھی لکھا ہوتا ہے اور بُرے کے بعد پھر سے اچھے کی اُمید رکھا، یہی سب کچھ ہمیں محبت سکھا جاتی ہے۔
وہ کوئی بھی چھوٹی بچی نہ تھی، اپنا خیال خود رکھ سکتی تھی مگر مجھے ہمیشہ اُس کی فکر کرنا، اُس کا خیال رکھا ، اُس کے چھوٹی سے چھوٹی روزمرہ کے کام کرنے کی ہمیشہ دل سے خوشی ہوتی تھی۔ وہ اس بات پر ہمیشہ تنگ ہوتی اور مجھے کہتی کہ میں کوئی چھوٹی بچی نہیں ہوں جو اپنا خیال نہیں رکھ سکتی۔ مگر میں ہمیشہ اَن سُنی کرتے ہوئے اُسکی فکر کرنا نہ چھوڑتا۔ یہ سب کچھ کرنا مجھے دل سے ایک خوشی دیتا ہے۔ اور ویسے بھی دل کی خوشی کے لئے تاج محل کا ہونا ضروری نہیں، بلکہ ایک لمحہ بھی بہت ہوتا ہے جو تاج محل سے بڑھ کر خوشی دیتا ہے۔ بس تو اُس لڑکی نے مجھے نہ شمار ہونے والے لمحے دئیے کہ جو میرے ساتھ میری پوری زندگی رہیں گے۔
ایک اور بات سے وہ ہمیشہ پریشان رہی کہ مجھے اُس کو ہر تہوار پر، اُس کی ہر سالگرہ پر، کسی بھی خاص دن پر تحفے دینابہت اچھا لگتا تھا ، اورنہ جانے کیوں وہ اس بات پر کبھی کبھی ناراض ہوجایا کرتی تھی۔ مجھے ہمیشہ یہی رہا کہ جب کبھی میں اُس کی زندگی میں نہ رہا تو مجھ سے وابستہ چیزیں اُس کو ہمیشہ میری کمی محسوس نہ ہونے دیں گی۔ اور اب تہوار بھی گزرجاتے ہیں، خاص دن بھی مگر اب میں ہمت نہیں کرپاتا کہ اُس لڑکی کو کوئی بھی تحفہ دے سکوں۔ خرید کر اپنے پاس ضرور رکھ لیتا ہوں کہ شاید کبھی۔۔۔۔
مگر پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جہاں اُس کو میری ضرورت نہ رہی، محبت نہ رہی۔ وہ بہت شرارتی رہی ہمیشہ، مجھے تنگ کرنا اُس کا بہترین مشغلہ تھا کہ جہاں وہ مجھے آرام سے بیٹھا نہیں دیکھ سکتی تھی۔ اور میں کبھی بھی اُس کی شرارتوں پر تنگ ہوا اور نہ ہی اُس کو کبھی منع کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ کبھی معلوم ہی نہ تھا کہ یہ شرارتیں بھی ایک دن میرے لئے خوبصورت یادیں بن جائیں گی۔ وہ سمجھدار ہوتی گئی اور سمجھدار ہونے سے اُس کو یہ اندازہ ہوا کہ میں زندگی کے راستے میں ایک ایسا درخت تھا کہ جہاں انسان تھک کر تھوڑا وقت بیٹھ ضرور جاتا ہے مگر تھکن ختم ہوتے ہی پھر سے سفر شروع ہوجاتا ہے۔ اُس کے لئے میری ذات کبھی اُس طرح رہی ہی نہیں کہ جہاں مجھے لگےمیں کبھی بھی اُس کے لئے اہم تھا، ہاں مگر وہ ہمیشہ سے میری ذات میں ایک اہم حصہ رہی ہے۔
اب صرف انتظار ہے پھر سے زہر کا۔۔۔ اِک اُمید اُس کے لوٹ آنے کی۔ جانتا ہوں کہ ایسی اُمیدیں سوائے معجزات کے پوری نہیں ہوتیں اور معجزات مجھ سے انسان کے ساتھ ممکن نہیں ہوتے۔ اور ویسے بھی اب ہم دونوں کی عمروں کا جوڑ بھی نہیں رہا، جو بچا تھا وہ ویسے ہی آہستہ آہستہ زندگی کے ساتھ ختم ہورہا ہے۔ بہرحال، میری ڈائری کا یہ ورق صرف گیارہ اپریل کے بعد سے شروع ہونے والے خوبصورت لمحات اور یادوں پر مبنی ہے کہ جہاں صرف یہ احساس ہی دلانا چاہتا ہوں خود کو کہ وہ اب بھی میرے ساتھ ہے۔ اب تو نہ ہی وہ مجھے دیکھنا چاہتی ہے اور نہ ہی بات کرنا۔ کاش اُس کو معلوم ہوتا کہ خود کو سمجھانا دنیا کا سب سے مشکل کام ہوتا ہے۔
انسان کو محبت نہیں کرنی چاہیئے اور اگر ہو بھی جائے تو کم از کم اظہار نہیں کرنا چاہیئے۔ کیونکہ اپنی محبت کا احساس دلا کر کسی بھی مجبوری کی وجہ سے اُس کو چھوڑ دیں اور ایک ان دیکھی اذیت میں مبتلا کردیں جو کہ کبھی کم نہ ہو۔ محبت فالتو وقت کا رشتہ نہیں۔۔۔۔ جناب محبت تو وہ ہے کہ آپ کے پاس لوگوں کی بھیڑ ہو اور وہ نہ ہو تو آپ کو اس بھیڑ میں بھی صرف اُس کی کمی محسوس ہو اور آپ کی نظریں صرف اُس ایک شخص کو تلاش کریں کہ جس نے محبت صرف وقت گزارنے کے لئے نہیں کی تھی بلکہ زندگی کے ہر راستے پر ساتھ چلنے کا دل سے اِرادہ کیا تھا۔
میرے دل میں تمہارے لئے محبت اللہ نے ڈالی تھی اور اگر تمہارے دل سے میرے لئے محبت ختم ہوگئی ہے تو اللہ نے ہی کی ہوگی اور جس چیز کو اللہ ختم کردیں اس پر سوال، اگر، مگر، کاش، اُف کی گنجائش نہیں رہتی مگر ہفتوں، مہینوں یا سالوں بعد مجھ جیسے انسان کی کمی تمہیں پریشان ضرور کرے گی اور کچھ نہیں تو اندر کی آواز بے سکون کردے گی اور پھر تمہیں بھی صبر کرنا ہوگا۔ ایک دن سب کو ہی اپنے نقصان پر صبر کرنا پڑتا ہے جیسے آج میں تمہارے منہ پھیر جانے پر صبر کئے ہوئے ہوں۔
(جاری ہے۔۔۔۔۔)