وہ انتہائی بے بسی سے رونے لگی ، اور اس لمحے مجھے اندازہ ہوا کہ میں اس کے لئے ایک اذیت ہوں جس کو وہ نہیں برداشت کر پارہی۔ کچھ اچھا کبھی نہیں کیا اُس کے لئے میں نے مگر اس وقت بس یہی صحیح لگا کہ اُس کو آذاد کر دوں اس قید سے۔ بس رونا نہیں چاہیے تھا اُس کو، آنسوؤں کا بوجھ آسان نہیں ہوتا۔
ہم دونوں کی عمروں میں کافی فرق تھا، اور عمروں کے ساتھ ساتھ میں ایک شادی شدہ تھا اور وہ اُس عمر میں کہ جہاں شادی میں تھوڑا وقت تھا لیکن ہمارے سوچنے کا انداز ایک جیسا تھا تو بہت جلد دوستی ہوگئی۔ جانے انجانے اُس کا خیال رکھتا، اُس کی باتیں سُنتا ، سمجھتا اور کبھی کبھی سمجھاتا بھی۔ دن اسی طرح گزرتے رہے تو اندازہ ہوا کہ شاید میں اُس کو چاہنے لگا ہوں میں، یہ بات جانتے ہوئے بھی کہ ہم دونوں میں زمین اور آسمان جیسا فاصلہ تھا کہ جہاں میں شاید چاہ تو سکتا تھا مگر زندگی ساتھ گزارنے کے لئےکوئی ممکن راہ نہ تھی۔ ایک لڑکی کے لئے یہ بہت آسان ہوتا ہے کہ وہ مرد کی نظر میں اپنے لئے پسندیدگی، چاہت یا کوئی بھی جذبہ دیکھ لیتی ہے اور یہی میرے ساتھ بھی ہوا کہ وہ سمجھ گئی کہ میں اُس کو چاہنے لگا ہوں اور شاید نہ چاہتے ہوئے بھی وہ بھی مجھ سے محبت کر بیٹھی۔
مطلب اب ہم دونوں ایک ہی کشتی کے سوار تھے، بغیر کسی لالچ کے، ہوس کے اور اُمید کے ہم دونوں نے خود کو اس نئے رشتے میں باندھ لیا۔ میں نے اس رشتے کو قبول کیا مگر اس یقین کے ساتھ کہ میں زندگی بھر اُس کا ساتھ نہ چھوڑوں گا اور اُس کو اپنانے کے لئے اپنی اِس زندگی میں جو ممکن کوشش کر سکا وہ ضرور کروں گا کہ ایک دفعہ اگر اُس سے کہہ دیا کہ مجھے تم سے محبت ہے تو یہ کہنے کے بعد کبھی پیچھے نہیں ہٹوں گا۔ یہی کچھ شاید اُس نے بھی سوچا ہوگا یا پھر وہ عمر ایسی تھی کہ جہاں عموماً ایسی غلطیاں ہوجایا کرتی ہیں۔
محبت کبھی بھی ایک رشتہ نہیں ہوتا، محبت شاید ایک ایسا احساس ہوتا ہے کہ جہاں رشتہ کبھی نہ ٹوٹنے کے لئے بنتا ہے، کہ جہاں ہم دوں لڑتے تھے، غصہ ہوتے مگر پھر ایک ہوجا یا کرتے۔ میں اُس کے ساتھ ہمیشہ شاید غصے کا تیز رہا اور مجھے کبھی اپنی اس بات کا یا غلطی کا اندازہ نہ ہوسکا۔ میری بہت ساری غلطیاں وہ خود برداشت کرتی رہی مگر مجھ سے کبھی نہ کہا کہ اگر مجھ سے کہا تو شاید میں نے اپنی غلطی نہ ماننا تھی۔ بس اسی لئے وہ مجھے چھوڑ کر دوسرے شہر چلی گئی ہمیشہ کے لئے کہ جہاں اُس کے لئے سب کچھ تھا ذہنی سکون کے لئے اور شاید میرا اُس شہر میں نہ ہونا زیادہ ذہنی سکون کا باعث تھا۔
میں کبھی بھی لڑکیوں کا شیدائی نہیں رہا، اور شادی کے بعد تو بالکل ہی عورت ذات سے دور کرلیا تھا خود کو، کہ دوستی تک کے بارے کبھی نہ سوچا مگر وہ ایک واحد ایسی لڑکی کہ جس نے مجھے اپنی معصومیت سے اپنی طرف اس طرح کھینچا کہ میں رُک نہ سکا مگر کبھی غلط کا نہ سوچا کسی کے بھی بارے۔ یہ الگ بات ہے کہ صرف چاہنا یا محبت کرنا ہی کافی نہیں ہوتا، اس کے ساتھ ساتھ ہمیں خود کو بہت زیادہ بدلنا ہوتا ہے اور یہ بات مجھے معلوم ہی نہ تھی۔ وہ دوسرے شہر تھی مگر پھر بھی ہم دونوں روزپہروں باتیں کرتے، ایک دوسرے کو اپنی روز کی داستاں سُناتے، لڑتے اور پھر ہمیشہ کی طرح سے مان جاتے۔
میں نے کافی کوشش کی کہ میں اپنا ٹرانسفر اُس شہر میں کروالوں کہ جہاں اُس نے اپنے ڈیرے ڈال لئے تھے، یا پھر کسی نئی نوکری کے لئے کوشش کروں اور یہ سب کچھ میں اپنے پورے دل سے کر رہا تھا کیونکہ مجھے اُس وقت تک یہ معلوم ہی نہ تھا کہ وہ مجھ سے کس لئے دور گئی، میں تو ہمیشہ یہی سمجھتا رہا کہ کوئی مجبوری اُس کو دوسرے شہر لے گئی، مگر یہ بات اُس کو شاید میں ٹھیک سے بتا نہیں پایا کہ میں اُس شہر کو اپنانے کی کوشش کر رہا ہوں یا وہ یہ بات ٹھیک سے سمجھ نہیں پائی، مگر اتنا ضرور ہے کہ اُسے ہمیشہ یہی لگا کہ میں نے اپنی فیملی کے لئے اُس کے نئے شہر میں سکونت کی کوشش نہیں کی اور اس بات نے اُس کو مجھ سے تھوڑا اور متنفر کردیا۔ اپنی کوششوں کے ساتھ ساتھ میں خدا سے یہ دعا بھی کرتا رہتا تھا کہ وہ واپس اِس شہر میں آجائے کہ جہاں ہم دونوں موجود رہیں ہمیشہ۔ اور خدا نے میری سُن لی اور شاید اُس کی دعا خدا تک نہ پہنچ سکیں اور وہ واپس آگئی۔
وہ لڑکی تو واپس آگئی مگر وہ اپنی محبت اُسی شہر میں چھوڑ آئی، میں بہت خوش تھا مگر شاید خوشیوں کی عمر ہی تھوڑی ہوتی ہے۔ واپس آنے کے بعد اُس نے بات کرنا چھوڑ دی، اگر بات کی بھی تو جیسے سرِراہ کوئی مل جائے تو اُس طرح۔ یہی سوچا کہ وقتی طور پر غصہ ہے یا نئے شہر سے واپسی کی وجہ سے بات کرنا بند کردی۔ پھر آہستہ آہستہ نارمل زندگی کی طرف لوٹنے لگی مگر نارمل زندگی میں بھی وہ احساس، فکر اور محبت شامل نہ تھی کہ جو جاتے ہوئے وقت تھی یا اُس شہر میں رہتے ہوئے وقت تھی۔ وہ کسی حد تک بدل چکی تھی مگر میں خود کو نہ بدل سکا۔ میں ہمیشہ اُسی جگہ کھڑا رہا جہاں پہلی بار اُس سے کہا تھا کہ مجھے تم سے محبت ہے۔ اب یہ اور بات کہ اُس کے لئے محبت لفظ کے کوئی معانی نہ رہے، کوئی وقعت نہ رہی اور کوئی قدر نہ رہی۔
میں نے ہمیشہ اُس کا خیال رکھا، مگر بس نظر انداز کئے جانے کا احساس تھوڑا دکھ دیتا اور دُکھ کے ساتھ ساتھ دل کو ایک عجیب سا غم بھی اور یہ بات مجھے اندر ہی کھاتی جاتی تھی اور میں مزید بدمزاج ہوتا گیا، لڑنے کی شدت زیادہ ہوتی گئی، اور اس کی وجہ بس یہی رہی کہ میں اندر ہی اندر سوچتا گیا اور جتنا سوچتا گیا اُتنا ہی زیادہ ڈپریشن میں جاتا رہا۔ وہ اپنی جگہ پر قائم رہی کہ اب اُس کو مجھ میں کوئی دلچسپی نہیں، اب یہ بات سچ تھی یا اس کے پیچھے کوئی بھی وجہ مگر ہر دفعہ لڑائی میں جتنے زخم وہ اپنی باتوں سے دے سکتی تھی اُس سے کہیں زیادہ ہی دئیے۔ میں ہمیشہ اُس سے دور جانے کی کوشش کرتا مگر پھر رُک جاتا کہ مجھے اُس کی بہت ساری باتیں روک لیا کرتی تھیں۔
ایک آخری شام کہ جہاں یقیناً میری ہی غلطی تھی، میں نے حسبِ روایت اور حسبِ عادت غصہ شروع کیا اور شاید بہت زیادہ ہی ہوگیا۔ کوئی بھی انسان ٹوٹ جاتا ہے جب کوئی شخص آپ کو صرف آپ کی غلطیاں ہی دکھاتا رہے اس لئے اُس سے بھی اب برداشت نہ ہوا اور وہ انتہائی بے بسی سے رونے لگی اور اس لمحے مجھے اندازہ ہوا کہ میں اس کے لئے ایک اذیت ہوں جس کو وہ نہیں برداشت کر پارہی۔ کچھ اچھا کبھی نہیں کیا اُس کے لئے میں نے مگر اس وقت بس یہی صحیح گا کہ اُس کو آذاد کر دوں اس قید سے۔ بس رونا نہیں چاہیے تھا اُس کو، آنسو نہیں سہہ سکتا ۔ بس روتے ہوئے اُس نے کہا کہ خدا تم سے پوچھے گا تمہارے ہر ظلم کا جو تم نے مجھ پر کیا ۔ بس یہی کر سکتا تھا کہ اُس کی زندگی سے چلا جاؤں، کم از کم اُس کو تو خوشیاں مل جائیں، میری ذات نہ پہلے خود کے لئے اہم تھی اور نہ پھر کبھی رہے گی۔
محبتیں یا تو پوری ہوتی ہیں یا اُدھوری رہ جاتی ہیں ، مگر درمیاں میں نہیں رہ سکتیں۔ میری محبت تو ہمیشہ پوری ہی تھی مگر پھر بھی ادھوری ہی رہی کیونکہ ہم کو اندازہ نہیں ہوتا کہ محبت پوری کرنے میں کتنی تکالیف اور کیسا کرب ہوتا ہے۔ اتنا تو ضرور ہے کہ میں غلط رہا ہر جگہ پر، اپنے محبت کے اظہار سے لے کر ادھوری محبت تک کہ ایک پوری فیملی کے ہوتے ہوئے مجھے ایسا کچھ سوچنا بھی نہیں چاہئیے تھا مگر یہ تو میں جانتا ہوں یا میرا خدا کہ میں نے ہمیشہ اُس خدا سے معجزہ مانگا۔ اور معجزہ صرف ان باتوں سے منسوب ہوتا ہے جو کہ عام زندگی میں ممکن نہیں ہوتیں۔ تو بس میں نے بھی اپنے خدا سے معجزہ مانگا اور اپنے خدا پر یقین رکھا۔۔۔ اپنی سانسوں سے بھی زیادہ۔
کہتے ہیں کہ کسی کے چلے جانے سے کوئی مر نہیں جاتا، ہاں مگر کسی کے چلے جانے سے ہمارے جینے کے انداز ضرور بدل جاتے ہیں۔ غلطی ضرور ٹھیک کی جاسکتی ہے مگر محبت ختم نہیں ہوتی۔ ہم سب اپنے اندر کہیں نہ کہیں خود کو باندھے رہتے ہیں، کبھی کسی فرد کے ساتھ، کبھی کسی پریشانی کے ساتھ، کبھی خوشیوں کے ساتھ اور کبھی کسی غم کے ساتھ۔ خوش رہنے کےلئے کبھی بھی تاج محل ضروری نہیں رہا، خوشی تو صرف ایک احساس کا نام ہے جو کبھی کبھی انتہائی چھوٹی سے چھوٹی حرکت سے بھی جڑی ہوتی ہے جیسے کہ شاید صرف کسی کی آواز سُن لینا، دیکھ لینا یا اتنا اطمینان کرلینا کہ دوسرا شخص خوش ہے۔ ہم اپنی زندگی روز گزار رہے ہوتے ہیں، لیکن کیا اپنی زندگی اپنے لئے بھی گزارتے ہیں یا نہیں؟ ہم میں سے بہت سے لوگ یقیناً اپنی زندگی اپنے مطابق اور اپنے لئے ہی گزار رہے ہوتے ہیں مگر بہت سے ایسے لوگ ہمارے اِرد گِرد موجود ہوتے ہیں جو زندگی تو گزار رہے ہوتے ہیں مگر اپنے کاندھوں پر شاید اتنی ذمہ داریاں ہوتی ہیں کہ اتنا وقت ہی نہیں ملتا ہے کہ جب رات نیند کا انتظار کر رہے ہوں تو یہ دیکھ سکیں کہ کیا ہم نے پورے دن میں اپنے لئے کوئی لمحہ گزارا یا نہیں۔
یہ سچ ہے کہ ہر دعا جلد قبول نہیں ہوتی یا قبول ہی نہیں ہوتی۔ کچھ دعائیں اگر قبول نہ ہوں تو اس پر یقین رکھنا چاہیئے کہ اللہ نے جو آپ کے لئے منتخب کیا ہے وہ یقیناً گزرنے والے سے بہترین ہوگا، اس کے برعکس ہم دعاؤں پر یقین ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ اور اگر جلد قبول نہیں ہوتی، اگر تہجد فوراً حاجات کو پورا نہیں کرتی، اگر آپ کی منتیں مرادیں وقت لیتی ہیں تو اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ آپ کی دعاؤں کو رد کردیا گیا، دیر سے ملنا بھی خدا کی رحمتوں میں شامل ہوتا ہے۔ اللہ نے ہر بات کا ایک وقت مقرر رکھا ہے کہ جہاں ہتھیلی پر سرسوں نہ جمتی ، لیکن دعائیں اس انداز میں قبول ہوتی ہیں کہ معجزات ہی رونما ہوتے ہیں۔ مجھے اُس سے نہ کوئی شکایت ہے نہ کوئی گلہ، ہاں مگر نہ آپ کسی کو خود سے محبت کرنے کے لئے مجبور نہیں کرسکتے تو اسی طرح کسی اور کو محبت نہ کرنے پر مجبور نہیں کرسکتے۔ ادھوری ہی سہی، محبت تو ہے نا۔
(ایک پُرانی کہانی جو کسی اور زبان سے ماخوذ کی گئی ہے۔)