مجھے صحیح سے علم نہیں کہ اس عنوان کو اردو میں کیا کہتے ہیں، کیونکہ جو خود سے کی وہ یہ محبت نہیں مگر دنیا کی نظر میں جو محبت کی وہ یہی رہی تو اس لئے دنیا کی مان کر اپنی محبت کی نفی کے لئے خود ساختہ اچھائیوں پر دیکھتے ہیں کہ کیا اچھا کرنا چاہا اور بس ہمیشہ برا ہوتا گیا۔ عجیب سی بات کہ ہم کبھی کبھی اپنی محبت میں اتنا بڑھ جاتے ہیں کہ ہمیں کچھ اور نظر آنا ہی بند ہوجاتا ہے، یہاں تک کہ جس سے محبت کرتے ہیں اُس کا بیزار ہونا بھی نظر نہیں آتا۔
میں اُس کا بہت خیال رکھتا تھا، اس لئے نہیں کہ اُس کو اپنا خیال نہیں تھا، مگر اس لئے کہ کچھ رشتوں میں فکر اور خیال فطری ہوتا ہے۔ اگر ایک ماں اپنے بچے کی فکر کرتی ہے تو ماں کو کوئی یاد نہیں دلاتا کہ اُس کو فکر کرنی ہے، یہ تو بس ایک فطری سا جذبہ ہے جو ہر اُس دل میں ہوتا ہے جس کو کسی بھی رشتے کی فکر ہوتی ہے۔ ماں کے لئے بچہ چاہے جتنا بڑا ہوجائے، ماں کی فکر بچے کی عمر کے ساتھ نہیں بندھی ہوتی ۔ بہرحال یہ نام نہاد محبت ایک ایسا جذبہ تھا کہ جہاں مجھے اُس کے لئے کچھ بھی کرنے کو ہمیشہ تیار رکھتی تھی اور میں ہمیشہ اُس کے لئے بس یہی سوچا کرتا کہ اُس کے لئے ہمیشہ اچھا کرتا رہوں مگر یہ نام نہاد محبت کی ایک خام خیالی تھی، کیونکہ ہم پرندے کو قید کرکے بس سوچتے ہیں کہ ہم نے اُس کو بہت آرام سے رکھا ہوا ہے مگر اس پرندے کو ان باتوں کی پرواہ کئے بغیر صرف اپنی آزادی سے غرض ہوتی ہے اور بالکل اِسی طرح اُس کو بھی ہمیشہ ایسے ہی لگا کہ جیسے میں نے اُس کو قید کیا ہوا ہے۔
وہ ہمیشہ کہتی تھی کہ محبت کرتے ہو تو مجھے آذاد کردو، کیونکہ یہ محبت صرف تم کرتے ہو اور اگر تم صرف خود اپنے دل کی سنتے ہو تو یہ محبت نہیں، یہ صرف نام کی محبت ہے کہ جہاں بس تم ایک ضد پوری کرنا چاہتے ہو۔ شاید ٹھیک ہی کہتی تھی وہ کہ میں ایک عجیب سی سوچ لئے بس اُس کو ہمیشہ دیکھنا چاہتا ، ہمیشہ باتیں کرنا چاہتا اور کہتے ہیں کہ جس سے محبت کرتے ہیں اُس کے لئے ہمارے روئیے میں جنون آجاتا ہے، اور اُس کی وجہ صرف یہ ہوتی ہے کہ ہم اُس کو کھونے سے ڈرتے ہیں، بہت زیادہ ڈرتے ہیں۔ مگر یہ باتیں صرف کتابوں میں ہوتی ہیں، باتوں میں ہوتی ہیں یا افسانوں میں ہوتی ہیں، حقیقی زندگی میں ان باتوں کا تعلق انسانی روئیے سے بالکل الگ ہوتا ہے۔ دنیا کی کوئی بھی ٹیکنالوجی شاید آپ کے جذبات کی حقیقی ترجمانی نہیں کرسکتی، کیونکہ اللہ نے دنیا کے ہر انسان کو الگ بنایا ہے، الگ سوچ کے ساتھ، الگ فطرت کے ساتھ تو ہم کس طرح ساری کتابی باتیں کسی ایک انسان سے منسوب کرنے کی بجائے پوری انسانیت کے ساتھ منسوب کرسکتے ہیں؟
یہ جو نام نہاد محبت ہوتی ہے یہ شاید دنیا کے لئے ہوتی ہے مگر جو شخص یہ نام نہاد محبت کرتا ہے وہ اپنے پورے دل اور اپنے پورے جذبے کے ساتھ اس لفظ کو نبھانے کا حوصلہ رکھتا ہے، ہاں یہ الگ ہے کہ ہر شخص اتنا حوصلہ رکھنے کا سوچ کر ہی ان الفاظوں کو نبھانے سے دور چلا جاتا ہے، اور جو دور نہیں جاتا اُس کو اپنے ہر لفظ کی قیمت خود ادا کرنی ہوتی ہے، چاہے وہ کسی بھی طرح ہو۔ ان باتوں کا مقصد محبت کو انتہائی محترم بتانا نہیں، محبت تو یقینا آج ایک بارہ یا تیرہ سال کے بچے کو بھی ہوجاتی ہے، اور اس محبت میں ہر حد سے گزرنے کو تیار رہتا ہے، مگر یہ محبت نہیں، یہ محبت لفظ کی توہین ہی کہی جاسکتی ہے کہ جہاں ہم صرف اپنی ایک وقتی دل لگی کو ایک نام دیتے ہیں۔
وہ کہتی ہے کہ میری محبت یا میرا جنون صرف اُس کو اپنے سامنے دیکھ کر ہی بڑھتا ہے، اگر وہ میرے سامنے نہیں تو پھر کوئی جذبہ نہیں، کوئی محبت نہیں۔ ویسے یہ بات سچ ہوسکتی ہے کہ لوگ اسی طرح کے ہوتے ہوں گے مگر اس لفظ کو نبھانے سے پہلے میں نے اس بات کا یقین کیا تھا کہ اگر میں یہ نام نہاد محبت کرتا ہوں تو کیا میں اپنے ہر کہے لفظ کو پورا کر پاؤں گا یا نہیں۔ ایسا ہر گز نہیں کہ مجھے اگر اُس کا خیال رہا تو دنیا میں کسی اور رشتے کا کوئی بھی احساس یا خیال نہ رہا، ہر رشتے کی اپنی قدر، اہمیت ہوتی ہے اور بہت سے فرائض بھی اسی طرح ہر رشتے کے ساتھ منسلک ہوتے ہیں، تو جہاں مجھے ہمیشہ اُس کا خیال رھا، وہیں مجھے خود سے وابستہ ہر رشتے کا خیال رہا، ہاں بس رشتوں کے خیال میں صرف اپنا خیال نہیں رہا اور اس بات کا کوئی غم نہ تھا اور نہ آج ہے۔
وہ ہمیشہ چاہتی کہ میں اُس کو اُس کی مرضی سے زندگی گزارنے دوں، مگر مرضی سے زندگی گزارنے کامطلب بالکل آزادی شاید کبھی نہیں ہوتا۔ شخصی آزادی کا مطلب یہ تو ہوسکتا ہے کہ آپ کے خیالات اور آپ کا بہترین دنیا کے سامنے ہو مگر شاید ماڈرن ہونا آزادی نہیں کہلایا جاسکتا۔ ماڈرن ہونے کا تعلق کبھی بھی عمر کے ساتھ منسلک نہیں رہا، کہ جہاں میری عمر گزر رہی ہے تو مجھے وہ چیزیں بُری لگیں جو کہ آج کے دور کے لوگوں کی نظر میں ٹھیک ہوں، بلکہ دین اور دنیا آپ کو ایک ایسا احساس دیتا ہے کہ جہاں ماڈرن رہتے ہوئے بھی ہم اپنی تمام اقدار کو پورا کریں اور اگر کوئی آپ کو اس بارے صرف آپ کو تھوڑا روکتا ہے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ شخص آپ کا دشمن ہے اور آپ کو قید کیا ہوا ہے۔ یہ نام نہاد محبت صرف ایک ہی خواہش رکھتی ہے کہ جس سے محبت کی، اس کا خیال، اس کی فکر اپنی سانس سے بھی زیادہ کی جائے، اس کی ہر کہی ان کہی خواہش کو پورا کیا جائے۔ ہاں مگر یہ نام نہاد محبت صرف اپنی خواہش پورا کرنا چاہتی ہے، اس بات کی پرواہ کئے بغیر کے لوگ کیا کہیں گے، لوگ کتنی باتیں کریں گے، کتنا مذاق بنائیں گے، کتنی دل آزاری کریں گے مگر یقین مانوکہ انجانے میں تو یہ غلطیاں ہوسکتی ہیں مگر جان بوجھ کر کوئی رشتہ بھی ایسا کوئی غلطی نہیں کرنا چاہے گا اور نہ ہی کرے گا۔
ہم نے اکثر سنا ہوگا، پڑھا ہوگا کہ محبت میں شک کا مطلب صرف فکر ہی ہوتا ہے، اگر کوئی آپ پر پابندی لگاتا ہے تو اس لئے نہیں کہ اُس کو یہ پابندی پسند ہے یا وہ دقیانوسی انسان ہے، بلکہ اس لئے کہ وہ آپ کی فکر کرتا ہے، زمانے کی فکر کرتا ہے، یہ فکر کرتا ہے کہ جب وہ نہیں ہوگا تو آپ دنیا کو بہترین طریقے سے سنبھال سکیں۔ چلئے کوئی نہیں، ہم صرف اپنی نظر میں اچھے ہوتے ہیں، جیسے کہ میں خود۔ لیکن دوسرے ہمیں ہم سے زیادہ بہتر طریقے سے سمجھتے ہیں اور ہمارے بارے اپنی رائے رکھتے ہیں۔ کچھ باتوں کا اختتام نہیں ہوتا، اور شاید اس نام نہاد محبت کا بھی نہیں ہے، تو پھر ملتے ہیں۔۔۔ شاید۔